شمس الرحمن فاروقی

بہت دن ہوئے “پسِ آئینہ” کی نظموں غزلوں کے ذریعہ یاسمین حمید کے کلام سے میری ملاقات ہوئی تھی تو ایک خوشگوار تعجب اور فرحت کا احساس ہوا تھا۔ ہمارے زمانے میں عورت شعراء کے ساتھ ایک نئی مشکل یہ ہے کہ پڑھنے والے، بلکہ نقاد، بار بار پوچھتے ہیں: عورت کی حیثیت سے وہ دنیا کو کیسا دیکھتی ہے اور دنیا کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ یہ سوال برجا سے ہے۔ لیکن کسی شاعر کے بارے میں پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ شاعرکیسا ہے؟ اور یہ سوال بلا لحاظ ِ مذہب و جنس پوچھا جانا چاہیے۔ آج کی بہت سی عورت شاعروں کو میں اس کشمکش میں غیر شعوری طور پر مبتلا دیکھتا ہوں کہ وہ “اپنا پیغام” اپنے کلام میں ضرور داخل کر دیں، تا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ اُنھوں نے اپنے تانیثی تشخص کے ساتھ بے انصافی تو نہیں کی ہے؟ یاسمین حمید کا پہلا مجموعہ جو میرے ہاتھ لگااس نے مجھے کسی شک میں نہ رکھا تھا کہ یہ حسیت، یہ خاموش، متین لیکن درد میں رچا ہوا لہجہ عورت ہی کا ہو سکتا ہے۔ لیکن ذرا زیادہ غور کیا تو محسوس ہوا کہ اس شاعر کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ اپنی تانیثی حسیت کو بے پردہ نہیں کرتی۔ اس کی شاعری پر “عورت پن” کا خود کار ٹھپہ نہیں ہے۔ وہ عورت بھی ہے اور دُکھ اُٹھاتے ہوئے، اُمید و بیم سے لڑتے ہوئے، خوف اور دہشت اور عالم گیر تاجر انہ سماج کے دباؤ میں جینے کی کوشش کرتے ہوئے جدید انسان کی بھی ترجمان ہے۔

پس ِ آئینہ کے بعد میں نے یاسمین حمید کے دو مجموعے اور دیکھے ہیں اور رسالوں میں بھی ان کا کلام گاہے گاہے دیکھنے کا اتفاق ہوتا رہا ہے۔ وقت کے آگے بڑھنے کے ساتھ یاسمین حمید کے کلام میں بعض نئی جہتیں پیدا ہو گئی ہیں، مثلاً سیاست ان کے لیے اب ایسی حقیقت کا رُوپ اختیار کر چکی ہے جو گندے دُھوئیں کی طرح عالمِ انسانی پر محیط ہے، لیکن سیاست ان کے یہاں موضوعِ سخن نہیں، بہانہئ سخن ہے، اور یہی بات ان کی شاعرانہ مہارت اور استعاراتی نگاہ کی دلیل ہے۔ نثری نظم کے پردے میں اب یاسمین حمید کی برہمی اور تلخی اور محزونی کچھ زیادہ نمایاں ہے اور بعض اوقات خوف پیدا کرتی ہے کہ اس بظاہر خاموشی پسند شاعر کے دل میں کتنے تلاطم اُبل رہے ہیں۔ نظم میں، اور خاص کر نثری نظم میں، ابہام کی بھی گھٹا ئیں پُر لطف تاثر پیدا کرتی ہیں۔ پڑھنے والا دیر تک ان نظموں میں معنی کی تہوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ غزلوں میں سادہ گوئی اور تازہ گوئی پہلے کی طرح ہے۔ تانیثی جہت اب بھی پہلے کی طرح موجود لیکن زیادہ تر زیرِ زمیں ہے۔ “پسِ آئینہ” کا پہلا شعر ہے

کنارے پر کھڑی ہوں اور کنارے ڈھونڈتی ہوں
سحر کی روشنی میں چاند تارے ڈھونڈتی ہوں

یہ رومانی تلاش بھی ہے اور آج کی زندگی کی محزونی اور نارسائی بھی۔ “آدھا دن اور آدھی رات” کا آخری شعر حسب ِ ذیل ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ مجھ کو میرا خالق
بنانا چاہتا ہے یا مٹانا چاہتا ہے

یہاں رومانی تلاش نے بالآخر شاعر کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اب ہر طرف استفسار اور رنجیدگی اور تھوڑی سی برہمی ہے۔ یہ انتہائیں نہیں، منزلیں ہیں، بہت بلند منزلیں۔ یاسمین حمید ہمارے شکر یے کی حقدار ہیں کہ انھوں نے جدید شاعری کو ایک نیا وقار بخشا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی
الہٰ آباد، ستمبر ۲۰۰۶

پروفیسر سحر انصاری

از اسالیب۔۱ – کتابی سلسلہ – نومبر۔دسمبر ۲۰۱۰ء – یاسمین حمید کی نئی غزلیں

شعر و ادب کی دنیا بعض امور میں ا پنے جدا گانہ طور طریقے رکھتی ہے۔ اس دنیا اور اس سے وابستہ افراد کو ان کے پسند کرنے والے دیگر شعبوں کے مقابلے میں زیادہ جانتے اور مانتے ہیں لیکن اُن کی انفرادی حیثیت اور مرتبے کا تعین اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس کسی کھلاڑی یا کاریگر کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے بہتر اور کم تر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ادب و شعر کی طرح غیر معمولی آگاہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شعر و ادب کی دنیا میں کسی کے تخلیقی معیار تک پہنچنا اور پرکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ جب کوئی تخلیق کار محض رسمیات ِ فن سے مبرّا اور بالا تر ہو تو یہ مشکل اور بھی سوا ہو جاتی ہے۔

یاسمین حمید کے بارے میں اظہار ِ خیال کرتے ہوئے یہی خیالات مجھے اپنی سمت کھنیچ رہے ہیں۔ دراصل یاسمین حمید نے شعرو ادب کی دنیا میں رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ اپنی شناخت اس طرح بنا لی ہے کہ انھیں تحسین و ستائش کے عمومی پیرایوں کے ذریعے سمجھنا ان سے نا انصافی کے مترادف ہوگا۔ یاسمین حمید نے شعرو ادب کو سنجیدگی سے اپنایا ہے۔ وہ ادب و شعر کی تخلیقی اور سماجی صورت ِ حال کو پہچانتی اور اسے انفرادی طور پر پایہئ کمال تک پہنچا نا جانتی ہیں۔

یاسمین حمید نے نظموں، غزلوں کے علاوہ اپنے تراجم اور تنقیدی مضامین کے ذریعے خود کو ایک جانی پہچانی عمومیت سے الگ اور بلند کر لیا ہے۔ اُن کی نظم ونثر پر مشتمل تحریریں اگر سب کی سب نہیں تو بیشتر میری نظر سے گزرچکی ہیں۔ انھیں ادب کی دُنیا میں جس طرح کی اہمیت حاصل ہوئی ہے، وہ ان کا حق ہے کیوں کہ وہ بہت سنجیدگی اور عزم کے ساتھ ادب کا کام کر رہی ہیں۔انھیں جو ادبی اعزازات ملے یا مل سکتے ہیں، وہ بلاشبہ اُن کی میرٹ کی غمازی کرتے ہیں۔

اس وقت یاسمین حمید کی چند غزلیں میرے سامنے ہیں۔ ان غزلوں میں اُن کی وہ ساری تخلیقی انفرادیت نمایاں ہے جو یاسمین حمید کے اسلوبِ سخن کی پہچان ہے۔شعر و ادب کی تخلیق ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس کی درجہ بندی میں ناقدین اور مبصرین نے خالصتاًفطری او ر وہبی عنصر کو الگ رکھا ہے اور اس کے ساتھ اگر علمی معیار، دانش پژوہی اور انفرادی شناخت مل جائیں تو اس کے لیے تحسین و ستائش کا رُخ ذرا مختلف ہوگا۔ یعنی بات خالصتاً شاعری اوردانشورانہ شاعری کی ہے۔ میں یاسمین حمید کو مؤخر الذکر زمرے میں رکھتا ہوں۔

تاہم یاسمین حمید کے مزاج کا یہ رنگ آج یک بہ یک سامنے نہیں آیا ہے بلکہ جیسے عرض کیا ہے کہ شروع ہی سے اُن کی شاعری ایک سنجیدہ ذہن کی عکاس ہے، البتہ یہ ضرور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ زمانے کے گرم و سرد اور نئے تجربات نے اُن کی فکر کو مزید گہرائی دی اور سنجیدگی کو کچھ اور اُجاگر کیا ہے۔ اس کا اظہار اُن کی نئی غزلوں سے بھی ہوتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے

یاد نہیں کب لیکن ہم سوچا کرتے تھے
جس میں خوشیاں ہوں گی وہ گھر کیسا ہوگا
—————
زندگی کی علامتوں کی طرح
دل کسی امتحان میں رہے گا
—————
لوگ سنورتے سجتے بنتے رہتے ہیں
اور زمانہ اُن پر ہنستا رہتا ہے
—————
ہم اسی دُنیا کا حصہ ہیں مگر اس سے الگ
خامشی میں جی رہے ہیں خامشی کے حق میں ہیں

تخلیقِ فن کے جملہ مراحل از اوّل تا آخر کسی کلچر اور زمینی حقائق کی دَین ہوتے ہیں۔ ایک سچا فن کار اگرطلسمِ ہوش رُبا جیسی کوئی خیالی دنیا بھی وضع کر لے تو آخری تجزیے میں اس کے تمام تخلیقی اور فنی، جمالیاتی اور تاریخی زاویے حقیقی دنیا ہی سے متعلق ہوں گے۔اچھا اور زندہ رہنے والاادب کسی فرضی یا خیالی دنیا کی دَین نہیں ہوتا۔ یاسمین حمید بھی اسی دنیا اور اسی ماحول میں سانس لے رہی ہیں جس میں حلاوت اور روشنی، میتھو آرنلڈ کے الفاظ میں “سویٹنیس اینڈ لائٹ” کم سے کم تر اور تیرگی اور دھواں فزوں تر ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو میر حسن کا شعر پہروں ذہن پر دستک دیتا رہتا ہے

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رُباعی، کہاں کی غزل

تاہم سچا تخلیقی فن کار وہی ہے جو میر تقی میرؔ کی طرح “ناکامیوں” سے کام لے۔ کامیابیوں سے کام لیا تو کیا تیر مارا۔ اچھے تخلیقی فن کا ر کاکام نامساعد اور ناخوش گوار حالات میں بہتر مستقبل اور تاب ناک زندگی کی نوید سنانا ہے۔ لیکن جس دور میں آج کا فن کار جی رہا ہے، اُس میں مستقبل کی اُمید اور زندگی کی تاب ناکی کے خواب،سبھی کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔ ایسے میں امید کا دامن تھامے رکھنا کتنا مشکل اور کیسا صبر آزما ہے، اس کا اندازہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو زندگی اور اس کے مسائل پر حقیقت پسندانہ نگاہ ڈالنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اچھا تخلیقی فنکار ہمیں مایوسی کے اندھیروں میں نہیں دھکیلتا بلکہ ان سے نکال کر لاتا ہے۔ یاسمین حمید کا فن اس فریضے کی بجا آواری پوری ذمے داری سے کرتا نظر آتا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے

کسی طرح جب بن نہیں پڑتی
پھر تو سنبھل جانا ہوتا ہے
—————
سوال کو شکست ابھی ہوئی نہیں               زمین دل کی سخت ابھی ہوئی نہیں
محبتوں کے پہلے موسموں کی فصل         ہوا کا ساز و رخت ابھی ہوئی نہیں
—————
اپنا بوجھ بڑھا کر اس کا کم کردوں
دھیان اسی سولی پہ لٹکا رہتا ہے

ان اشعار میں نہ صرف زندگی ہے بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی ملتا ہے۔ یاسمین حمیدکے فن کا یہی حوالہ ہے جو انھیں اپنے دوسرے معاصرین سے ممتاز کرتاہے۔

امجد اسلام امجد

یاسمین حمید۔ ایک غیر معمولی شاعرہ

بارہ تیرہ برس قبل جب طاہر اسلم گوار نے یاسمین حمید کا پہلا مجموعہ “پسِ آئینہ” شائع کیا تو پاکستان میں بہت کم لوگ ان کے نام اور کام سے واقف تھے۔ کتاب پڑھی تو محسوس ہوا کہ یہ شاعرہ نہ صرف کہنے کو اپنے پاس بہت کچھ رکھتی ہے بلکہ اسے کہنے کا ڈھنگ اور ہنر بھی آتا ہے۔ پسِ آئینہ کے خود نوشت دیباچے “انعکاس” میں وہ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں

مگر حیرت کی بات ہے کہ میں نے خود کو بطور شاعر قدرے دیر سے دریافت کیا اور جب کر لیا تو جانا کہ میں دراصل یہی ہوں۔ اور اب شاعری زندگی کا جز ہے۔ معلوم نہیں یہ بات اچھی ہے یا برُی’ اپنے آپ کو شعر کہنے پر کبھی مجبور نہیں کر سکی۔ جب طبیعت مائل ہوئی تو ایک دن میں چار چار غزلیں بھی کہیں اور جی نہ چاہا تو کئی کئی مہینے یونہی گزر گئے۔
میری شاعری کیسی ہے، اسکا فیصلہ آپ پر چھوڑنا چاہوں گی۔ اتنا ضرور کہتی چلوں کہ مجھے سچائی سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہے۔جھوٹ جیت کر بھی خائف رہتا ہے اور سچائی ہار کر بھی مطمئن۔

اس تحریر کے اندر جو کمٹ منٹ اور حقیقت پسندی ہے اس نے چونکا یا بھی اور متاثر بھی کیا۔ اس کے بعد ان کے تین اور مجموعے “حصارِ بے درودیوار”، “آدھا دن اور آدھی رات” اور “فنا بھی ایک سراب” وقفے وقفے سے سامنے آئے اور ہر کتاب کے ساتھ ان کا فنی قد اتنا بلند ہوتا گیا کہ نظم ہو یا غزل’ ہر صنف میں و ہ یکساں اعتماد اور سلیقے سے بات کرتی ہیں۔ وہ ایک صاحبِ مطالعہ خاتون ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں اللہ کی اس زمین پر گھومنے پھرنے کا موقع خوب ملا ہے جس سے ان کی نظر اور وژن میں ایک ایسی وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے جو بہت کم جدید اُردو شعرا کے ہاں نظر آتی ہے، بالخصوص ان کی نظموں کے موضوعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف اُردو شعری روایت کی مخصوص حد بندیوں تک محدود نہیں رکھتیں بلکہ ارد گرد کی دنیا میں ہونے والے واقعات’ سیاسی اور تہذیبی تبدیلیوں اور زبردست اور زیردست قوموں کی آویزش اور اس کے اثرات پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں۔ ذاتی زندگی میں بہت کم گو اور شرمیلی ہونے کے باوجود ملنسار بھی ہیں اور ان کی شخصیت کا یہ عکس ان کی شاعری میں بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے، لیکن اکثر مقامات پر وہ زیادہ اعتماد اور قدرے بلند آواز میں بات کرتی نظر آتی ہیں۔ جو چیز انہیں بُری لگتی ہے اس کے خلاف وہ بات بھی کرتی ہیں اور بعض موضوعات پر اپنے غصے کو ضبط بھی کرتی ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس ضبط کی کیفیت کا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔

پسِ آئینہ سے چند شعر دیکھیے

آئی جب ا س کے مقابل تو نیا بھید کھلا
مجھ کو اندازہ نہ تھا اپنی توانائی کا
—————
ایک ایسا چراغ ہے مجھ میں
جس کا اپنا کوئی مکان نہیں
—————
نہ تھم رہا ہے نہ بڑھ رہا ہے
نہ جانے کیسا یہ زلزلہ ہے
—————
ہوئی ہے آگ سے جب سے رفاقت
دھواں پھیلا ہوا ہے زندگی میں
—————
میرا بھی ایک نام ہے میرا بھی اک مقام
یہ بھول ہی گئی تھی مگر اس کی چاہ میں
—————
ایک اعزاز کی صورت مجھے پائے کوئی
اور اعزاز کی صورت ہی میں کھوئی جاؤں

اس کتاب میں ایک نیم مسلسل غزل خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جس کا مطلع ہے

جس دن وہ مجھ سے الجھا تھا
سارے بندھن بھول گیا تھا

اس غزل میں ایک شاعرہ نے تعلقات کے گہرے بندھنوں میں پڑنے والی ان دراڑوں کا ذکر بڑی نزاکت اور فنکاری سے کیا ہے، جن سے ایک حساس اور خود اعتماد فرد ان تمام رشتوں کے حوالے سے گزرتا ہے۔ اس غزل میں مشرقی تعلیم یافتہ اور خود دار عورت کے حوالے سے چند ایسی باتیں کی گئی ہیں جو صرف یاسمین حمید کا حصہ ہیں۔

اس کہانی کا ایک اور رخ ان کے دوسرے مجموعے “حصارِ بے درو دیوار” کی ایک غزل میں بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے جس کے مطلع میں وہ کہتی ہیں

یہ کیسی ضد ہمارے درمیاں ہے
کہ جس میں دونوں جانب ہی زیاں ہے

اور اس سے آگے چل کر ایک اور بہت نازک اور خوبصورت شعر کچھ اس طرح ہے کہ

یہ کس پیرائے میں ہے گفتگو اب
نہ میری ہے نہ یہ اس کی زباں ہے

بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں چنداُردو شاعرات سے قطع نظر یہ میدان خالی پڑا تھا۔ یاسمین حمید سے پہلے ادا جعفری’ زہرا نگاہ’ کشور ناہید’ فہمیدہ ریاض’ پروین شاکر’ شبنم شکیل’ اور بہت سی دوسری شاعرات اُردو شاعری کی جدید تاریخ میں بلا تخصیص اپنا سکہ جما چکی ہیں۔ آج کل بہت زیادہ خواتین شاعری کر رہی ہیں اور آئے دن ان کے مجموعے چھپتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے جن چند شاعرات نے اپنے لیے کوئی مستقل مقام حاصل کیا یاسمین حمید ان کی صفِ اول میں ہیں۔

ان کی غزلوں میں ردیف اور قافیے کے تخلیقی استعمال کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی زمینیں بھی نظر آتی ہیں جو نئی بھی ہیں اور خوبصورت بھی اور ان میں شاعرہ کے عمومی لہجے کا ایک ایسا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ شاعری اور شخصیت ایک دوسرے سے گھل مل جاتے ہیں مثال کے طور پر ایک غزل کے دو شعر دیکھئے۔

مجھے آگہی کا نشان سمجھ کے مٹاؤ مت               یہ چراغ جلنے لگا ہے اس کو بجھاؤ مت
مجھے دیکھ لینے دو صبح ِفروا کی روشنی           میری آنکھ سے ابھی ہاتھ اپنا ہٹاؤ مت

پس ِآئینہ میں صرف ایک نظم سے جو اس کتاب کے آخری صفحے پر درج ہے مگر بعد کی کتابوں میں نظموں کی تعداد بتدریج بڑھتی چلی گئی ہے اور آخری مجموعے “فنا بھی ایک سراب” میں نظموں کی تعداد غزلوں سے بڑھ گئی ہے یہ نظمیں عام طور پر پندرہ بیس لائنوں پر مشتمل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرہ اپنی بات کو کمپیکٹ انداز میں کرنے کی عادی ہے اور بات کو بے جا طور پر طول نہیں دیتی موضوعات کے اعتبار سے بھی ان میں ایک ایسا تنوع ہے جو ایک ہی مرکز سے پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یاسمین حمید اُردو کی ایک نمائندہ شاعرہ قرار پائی ہیں اور اکیسویں میں جن آوازوں کی گونج دیر تک سنائی دینے کے امکانات روشن ہیں ان میں یاسمین حمید کی آواز بہت نمایاں ہے امید واثق ہے کہ مستقبل میں اپنے اس مقام کو مزید مستحکم کریں گی۔

یاسمین حمید کی شاعری کے بارے میں خالدہ حسین کی رائے

یہ جو ایک عام سا تعصّب پھیلایا گیا ہے کہ شاعرات کی دُنیا گھر آنگن اور نرم ورنگین جذبات تک محدود ہوتی ہے یا پھر بہت ہوا تو کسی نے دریچے سے اِدھر اُدھر جھانک لیا، یاسمین حمید کی شاعری اس تعصّب کی مکمل نفی کرتی ہے۔ مقام ِمسرت ہے کہ پروین شاکر اور اس کے معاصر گروپ کے بعد ایک ایسی شاعرہ اپنے پورے قدو قامت کے ساتھ منظرِ شعر پرمتمکن ہوئی ہے جس کا تخلیقی تجربہ کاسمک ہے۔ اس کے ہاں علم، شعور و آگہی، معلومات نہیں، ایک تجربے کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔ یاسمین حمید کی دُنیا پوری کائنات پر مبنی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، سیّا رے، پہاڑ، صحرا اور سب سے بڑھ کر سمندر، پانی، بے انت پانی اس کے مستقل رفقاء کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ مظاہر ِ فطرت اس کے احساسات و جذبات کے صرف پس منظرنہیں بنتے، وہ انہیں اپنا ہجولی محسوس کرتی ہے، بہ تکلف استعارے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتی۔یہ سب آیات اس کے محسوس تجربے ہیں۔ اسی لئے اس کی شاعری میں ایک شگفتہ و سعت ہے، تازہ ہوا، جو ہمیں خوشی، دردمندی اور توانائی بخشتی ہے۔ یہ شاعری وجود کی ایک نئی یا شاید گم شدہ سمت کی تلاش کا سفر ہے۔ ایک عورت کا تجربہ ہونے کے باوجود یہ صنفیّت سے مبرّا ہے، کیونکہ بنیادی طور پر انسانی زندگی کسی صنفیّت کی پابند نہیں۔

مرے احساس کی سمتیں ہیں مبہم
کہ جیسے نیند میں چلنے لگی ہوں

یہ نیند میں چلنے والے، شعور کی اَن دیکھی سمتوں کی جانب رواں ہوتے ہیں۔ کسی ایسی رفاقت اور تعلقِ خاطر کے متلاشی جو تقدیر اور ابدی حقیقتوں کا راستہ دکھائے، یہ شاعری اس سیارے پر انسان کی تنہائیوں اور حیرتوں اور تِشنگیوں اور گریز پا کامر اینوں کی داستان ہے۔ اس میں تصادم نہیں، دھیما اور مہذّب احتجاج ضرور ہے۔ زمین کے ہنگامے سہل نہ ہونے کا پختہ شعور جس میں عورت کی “سراپا خوف” زندگی شامل ہے۔

میں زند ہ رہتی ہوں اور زمانوں میں
دیے کی صورت جلتی ہوں تہہ خانوں میں

منفرد لفظی تصویر یں ہمیں ماورائی پینو راما میں لے جاتی ہیں۔کبھی کبھی وہ ایک ماہر مصوّر بن جاتی ہے جو موقلم کے چند ایک سٹروکس میں پورا حسیاّتی منظر جگا دیتا ہے۔

مجھ کو معلوم نہ تھا دھوپ پڑے گی اتنی
سر پہ جب پہنچے گا سورج تو ٹھہر جاء گا

وہ یہ بھی جانتی ہے کہ فن معلوم سے نا معلوم اور مانوس سے نا مانوس کی جانب سفر ہے اور ہم اس کے ساتھ ساتھ گم راستوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور مسافت ختم ہونے میں نہیں آتی۔

اپنے ماحول سے مانوس نہیں ہیں اب تک
ہم کسی او ر کہانی کے تو کردار نہیں

تلاش کا یہ سفر زندہ شاعری کا ضامن ہے
خالدہ حسین
اسلام آباد، اکتوبر۲۰۰۶ء

ابرار احمد

ازادبیات – شمارہ نمبر۶۹، جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳

جن شعر او شاعرات نے ثابت قدمی اور قابلِ رشک صلاحیت اور تخلیقی استعداد کے ساتھ اپنی بامعنی موجودگی کا احساس د لایا ہے، یاسمین حمید ان معدود ے چند شعر ا کی صفِ اوّل میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ ۸۸۹۱ میں پسِ آئینہ سے آغازہونے والا اُس کا سفر جہاں ایک ہمہ جہت شخصیت کی تعمیر کے مرحلہ وار اظہار سے مطابقت رکھتا ہے تو وہیں فنی جمالیاتی اور فکری سطح پر اِس پیش قدمی کو ایک واضح ارتقائی عمل کے طور پربھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ہر چند اُس کے ہاں ہونے کی سر خوشی اور معنویت بھی جگہ جگہ سر اُٹھاتی ہے لیکن بطور شاعر اُس کی رُوحانی جدوجہد میں جو احساس پوری شدت سے ایک زیریں لہر کی صورت میں موجود ہے، وہ ہے ملال۔ ملال جو کہیں دل گرفتگی بن کر معاملاتِ محبت سے وابستہ ہے تو کہیں ابدی جدائی اور موت کی مہک کی طرح لفظوں میں رواں دواں ہے۔ یہی احساس اُس کی تخلیقات میں اثر انگیزی پیدا کرتا ہے۔ ایک ایسی تاثیر جو اعلیٰ شاعری کی ناگزیر ضرورت اور خوبی ہوا کرتی ہے اور جس کے بغیر یہ کام محض لفظوں کی بازی گری بن کر رہ جاتاہے۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا شاعری میں محض اچھائی سے کام چل جاتا ہے؟ اچھے شاعر توان گنت ہیں۔ میرے نزدیک کسی بھی باکمال شاعر کی منزل انفرادیت کا حصول ہے، ورنہ تو وہ ہجوم کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یاسمین حمید نے تخلیقات میں ذات اور انفرادی خوشبو کے ذریعے اپنی جداگانہ شناخت کو ممکن کر دکھایا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ذات کے اظہار تک محدود ہے۔ دراصل اس کا عہد اور زمانہ اسی ذات کے حوالے سے اُس کے لفظوں میں منکشف ہوتا ہے اور یوں یہ شاعری روحِ عصر سے اپنا تعلق مضبوطی سے استوار رکھتی ہے اور اُس کی عکاس بن جاتی ہے۔

اصناف کی بابت بھی اُس کا طرزِ عمل وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ وہ اُن شعرا میں سے ہے جن کے ہاں ہیئت یا فارم کا تعین داخلی واردات کیا کرتی ہے،کچھ اور نہیں۔ غزل ہو، نظم یا غیر عروضی نظم (جسے اصولی طور پر نظم ہی کہا جانا چاہیے) اس کے اظہاری قرینے میں کہیں جھول دکھائی نہیں دیتا۔

یاسمین حمید کی شاعری کا مطالعہ ایک خوش کن تجربہ ہے اور بطور قاری آپ اپنے اندروہ خوشی موجود پاتے ہیں جو نئے پن سے تعارف اور منفرد کلام کے مطالعے سے ہی پیدا ہوا کرتی ہے۔

Source: The News Weekly Review